.میں نے رب کو مایوسی میں پایا

محبت میں تو ازل سے آزمائش لکھی ہے اس سفر میں قدم قدم پر انگاروں کے دہکتے راستوں کو پار کرنا پڑتا ہے کئی مرتبہ محبوب کی آزمائشوں  پر پُورا اترنا پڑتا ہے مگر یہ انگارے  کب گُلزار بن کر تمہارے  استقبال کیلئے بچھا دیے جایں  کب آزمائشیں ختم ہو کر وصل کے لحمات میں بدل جائیں یہ سب محبوب کی مرضی پر  منحصر ہے لیکن کئی بار حوصلے ٹوٹ جاتے  ہیں  انسان ہمت ہارنے لگتا ہے اس آگ کی تپش برداشت سے باہر ہوجاتی ہے انسان امید چھوڑ دیتا ہے اور بھٹک جاتا ہے بھٹکے تو آدم بھی تھے، بھٹکا ابلیس بھی تھا ،آدم لوٹ کر آئے تو بھی پیغمبر  کہلائے لیکن ابلیس تاقیامت لعنت کا مستحق بنا دیا گیا تو بس واپس اسی کے پاس لوٹ آنا ہی کامیابی ہے .کئی قافلے رات کے اندھیرے میں راستوں سے بھٹک جاتے ہیں مگر سورج کی کرنیں صیح راستہ دکھا جاتی ہے تو منزلیں پا لی جاتی ہیں . اسی طرح جب انسان اپنے اندر کا سفر کرتا ہے تو دل کا اندھیرہ اسے بھٹکا دیتا ہے لیکن روشنی کی ایک کرن اسے صیح راستے پر واپس کھینچ  لاتی ہے. وہ کرن اسی کی طرف سے تو ہے تمہیں وہی راستہ دکھاتا ہے تو بھٹک جانا مایوس ہونا اس کے اور قریب کر دیتا ہے اور جب بندہ مایوس ہوتا ہے تبھی تو اسے جانتا ہے وہ کتنا بے نیاز ہے جب خود کی قوتیں سلب ہو جائیں تو اس قوت کا اندازہ ہوتا ہے لیکن یاد رہے محبت میں انسان کبھی بھی محبوب سے مایوس نہیں ہوتا اگر محبوب سے مایوس ہوگئے تو پھر محبت کیسی، مایوس انسان خود سے ہوتا ہے جب تڑپ کی انتہا ہونے لگے جب دوری برداشت نہیں ہوتی جب درد بڑھنے  لگتا ہے تو انسان خود سے بھاگنے لگتا ہے اور اگر محسوس کر کے دیکھو تو اس بھٹکنے میں، تڑپنے میں، درد میں، مایوسی میں کس قدر راحت چھپی ہے. یہی تمہں محبوب کے ساتھ جوڑتی ہے اور محبوب کو عاشق کی تڑپ ہی تو پسند ہے پھر ایسی چیز جو تمہیں رب کے ساتھ جوڑ دے اس کے قریب کر دے تو وہ تو عاشق کیلئے نعمت ہوئی جب تک آزمائشیں نہیں آتی تب تک تم میں نکھار پیدا نہیں ہوتا یہ مصبتیں تمہاری روح پر وہ ضربیں ہیں  جو تمہیں خالص سونا بنا دیتی ہیں  اور روح کو پرواز بخشتی ہیں یہ ناممکن ہے کہ کوئی منزل مشکلوں کے بغیر میسر آئی ہو وہی مجنوں، لیلہ کے قدموں میں جان دینے کا شرف پاتا ہے جو صحرا کی دہکتی ریت پر بھی لیلٰہ کے نام کے سجدے کرنے کے ہنر سے واقف ہو اور صبر عشق کرنے والوں کا دوست ہوتا ہے اور سچا دوست قاصد کے فرائض سر انجام دیتا ہے اور ایک وقت آتا ہے کہ یہ بھٹکنے اور واپس آنے کی راہ ختم ہو کر منزل تک جا پہنچتی ہے تو بس کوششں ہی تو کرنی ہے پختہ یقین کے ساتھ ۔